7 اگست، 2023، 5:31 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

افریقہ کا جدید استعمار کے خلاف قیام

افریقہ کا جدید استعمار کے خلاف قیام

افریقی ممالک مغربی استعمار کے برسوں کے استحصال سے تنگ آچکے ہیں اور اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے، اس براعظم میں بے پناہ دولت موجود ہے لیکن اس کا ایک بڑا حصہ اب بھی غربت کی چکی میں کیوں پس رہا ہے؟

افریقہ میں بجلی کی اس قدر بندش کی وجہ کیا ہے؟ بجلی کی بندش سے کاروبار متاثر ہوا ہے اور یہ ان وجوہات میں سے ہیں جس نے براعظم میں اقتصادی ترقی کے عمل کو سست کر دیا ہے۔
مغرب افریقہ میں عدم تحفظ کو  اقتصادی ترقی میں سست روی کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن افریقی ممالک اس براعظم میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ، اہم انفراسٹرکچر میں ناکافی ترقی اور اس کے نتیجے میں اس کی غربت کی وجہ سے سابق مغربی استعمار پر الزام کی انگلی اٹھاتے ہیں۔

مغرب اور بالخصوص فرانس اور امریکہ افریقہ کے تمام مسائل کو سلامتی کے مسائل سے جوڑنے پر اصرار کرتے ہیں اور اسی بہانے انہوں نے اپنی مسلح افواج کو اس براعظم میں تعینات کر کے وہاں طویل عرصے سے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن دوسری طرف افریقی اقوام یورپی استعمار کی غلامی اور نسل پرستی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے جو اس براعظم میں تقریباً 500 سال سے   قائم ہے۔ 

افریقہ میں مغربی سامراج کے تاریک دور کے دوران بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور نسل کشی ہوئی۔ ان صدیوں کے دوران مغرب نے اپنے لالچ کی تسکین کے لیے اس براعظم کو شرمناک حدتک لوٹا ہے۔

اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ افریقہ کے مسائل کا حل اس کے مغربی اذیت پسندوں اور انہی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں ہو سکتا جنہوں نے پوری تاریخ میں اس براعظم کے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس براعظم کے کچھ ممالک اپنے مغربی استعماری آقاؤں کو نکال باہر کرنے میں کامیاب رہے اور غربت، سلامتی کے مسائل اور غیر ملکی مداخلتوں کے خاتمے کے لیے کامیابی سے حل تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ حال ہی میں مالی، برکینا فاسو اور نائجر جیسے ممالک جو اپنی خودمختاری کے خواہاں ہیں، نے بھی اس عمل کو اپنا لیا ہے۔

فرانس کی دوبارہ تسلط کی کوشش

10 سال پہلے فرانس افریقہ میں اپنی فوجی موجودگی کو نمایاں طور پر بڑھانا چاہتا تھا، اور اس وجہ سے سیکورٹی مقاصد اور علیحدگی پسند قوتوں کو مالی کے دارالحکومت تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش میں، اس نے صحارا کے ساحل پر ہزاروں فوجی بھیجے۔

تاہم، افریقہ میں فرانسیسی فوجی مشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے صحارا کے پورے ساحل پر اپنے قدم مضبوط کر لیے اور اس خطے کے بہت سے حصوں کو اپنے کنٹرول سے باہر لے لیا اور دوسری طرف انھوں نے مالی اور برکینا فاسو میں نسلی تشدد کو ہوا دیا۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ناکام فرانسیسی مشن دراصل براعظم میں سابق نوآبادیاتی طاقت کی جانب سے خطے پر اپنی بالادستی کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش تھی۔ 2011 میں لیبیا میں نیٹو کی فوجی مداخلت صحرائے صحارا میں داعش کے دہشت گردوں کی موجودگی میں توسیع کا باعث بنی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے ماہرین خطے میں دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔

گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2023 کا کہنا ہے کہ  صحارا  میں ساحل کا علاقہ دہشت گردی کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ 15 سالوں میں صحارا میں دہشت گردی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

2007 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں سے صرف ایک فیصد کا تعلق صحرائے صحارا سے تھا۔ یہ شرح ان افریقی ممالک کے لیے جاری نہیں رہی جو مغرب خصوصاً امریکا اور فرانس کے اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ سے متاثر تھے۔

گذشتہ کئی سالوں کے دوران افریقہ میں بغاوتوں میں اضافہ ہوا ہے، ایک ایسا مسئلہ جس کے بارے میں مبصرین افریقہ میں مغربی حکومتوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے افریقہ کے سلامتی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، اور نہ ہی براعظم میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

آخری فرانسیسی فوجی کو گذشتہ سال مالی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد باماکو نے پیرس کو فرانس کی جانب سے اس ملک کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششوں کے بارے میں خبردار کیا۔ 

مالی کے وزیر خارجہ عبداللہ دیوپ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعلان کیا کہ اگر فرانس ہمارے ملک کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتا ہے اور ہماری علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کو کمزور کرتا ہے تو مالی کی حکومت اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ جب کہ جنوری میں برکینا فاسو کی حکومت نے اسی طرح کے اقدام کے ذریعے فرانسیسی فوجیوں کو ملک  چھوڑنے کے لیے سنجیدہ انتباہ دیا ہے۔

ادھر برکینا فاسو کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرانسیسی فوج پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے سیکیورٹی مسائل کو خود ہی حل کرے گی، کیونکہ فرانس کی وجہ سے ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔

لیکن پیرس نے ہچکچاتے ہوئے اس معاملے کو قبول کیا۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا: اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے ہم معاہدے کی شرائط کی تعمیل کریں گے۔

یہ درخواست برکینا فاسو میں فرانس مخالف جذبات میں تیزی سے اضافے کے بعد سامنے آئی ہے، مظاہرین نے فرانسیسی پرچم نذر آتش کیے تھے۔

فرانسیسی افواج کی موجودگی کے دوران برکینا فاسو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک بن گیا اور اس وقت ملک میں القاعدہ اور داعش سے وابستہ دہشت گرد گروہوں میں اضافہ ہوا، دہشت گردوں نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا جس سے ملک میں انسانی بحران پیدا ہو گیا۔

فرانسیسی فوج کی موجودگی کے دوران نہ صرف برکینا فاسو میں سیکورٹی کی صورتحال خراب ہوئی بلکہ فرانسیسیوں کی موجودگی نے اس ملک کو اس کے معدنی وسائل جیسے سونا، زنک، تانبا، میقناطیس، فاسفیٹ اور چونا پتھر سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے روک دیا۔ ملک میں ہیرے، باکسائٹ، نکل اور وینڈیم کے ذخائر بھی ہیں۔برکینا فاسو کے پاس اب ان وسائل سے فائدہ اٹھانے اور اپنی آبادی کو غربت سے نکالنے کے بھرپور مواقع ہیں لیکن فرانس کی لوٹ مار نے اس ملک کو غربت میں دھکیل دیا ہے۔

امریکہ افریقہ میں تباہی پھیلانے والی ایک اور بڑی مغربی طاقت ہے، امریکہ کے اس براعظم کے 15 ممالک میں 21 مشہور فوجی اڈے ہیں۔

فرانس کی طرح امریکہ پر بھی اپنی فوجی کارروائیوں اور مداخلتوں بشمول منصوبہ بند خفیہ فضائی حملوں کے ذریعے افریقہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام ہے۔

امریکیوں کے بم اس ملک کے معصوم شہریوں کو مارتے ہیں اور انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں جو کہ اب کوئی راز نہیں رہا۔

نائجر فرانسیسی استعمار کا شکار ملک ہے جس کی خودمختاری کو امریکہ نے بھی پامال کیا، حال ہی میں اس کے صدر "محمد بازوم" کو ان کے صدارتی محافظوں نے بغاوت کے دوران گھر میں نظر بند کر دیا۔ نائجر کے صدارتی محافظ کے سربراہ جنرل عبدالرحمان چیانی نے خود کو ملک کے رہنما کے طور پر متعارف کرایا اور کہا کہ وہ سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

اس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی کہ سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے بازوم سے کئی بار بات کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اس اہلکار نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ بازوم نے ایک امریکی اخبار کے لیے ایک مضمون میں اپنی گرفتاری کے بعد واشنگٹن حکومت سے مدد بھی مانگی۔ ہفتے کے روز، نائجر کے صدر نے ایک بار پھر امریکہ سے کہا کہ وہ ملک میں امن بحال کرے۔

اب تک نائجر میں بغاوت کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا چکے ہیں اور تصاویر میں مظاہرین کو روسی پرچم لہراتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

تاہم، امریکہ نے کہا ہے کہ وہ نائجر میں فوجی دستوں بشمول ڈرون اڈوں کو برقرار رکھے گا جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اچھی یا بری بغاوت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ تمام بغاوتیں بری ہوتی ہیں، تاہم نائجر میں بغاوت کے لیے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے، کیونکہ بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر مغرب پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

نائجر کے دارالحکومت نیامی میں ہونے والے مظاہروں میں مظاہرین نے اس ملک میں فرانسیسی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔

مغربی ممالک جیسا کہ فرانس جو ایک سابق نوآبادیاتی طاقت ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطے کے کچھ ممالک نے بازوم کو اقتدار میں واپس لانے کے لیے دباؤ بڑھانے کے مقصد سے نائجر پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ لیکن نائجر کے نئے فوجی رہنما اس معاملے سے لاتعلق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’غیر انسانی‘ پابندیاں عائد کیے جانے کے باوجود فوج پیچھے نہیں ہٹے گی۔

پابندیاں مسئلے کا حل نہیں ہیں، یہ صرف نائجر کے لوگوں کو مزید غریب بنائے گا اور تعزیری اقدامات کی ہدایت پر مغرب سے ان کی نفرت میں اضافہ کرے گا۔

نائجر میں یورینیم ایسک کے بڑے ذخائر ہیں اور ناقدین مغرب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ افریقہ سے دنیا کے اعلیٰ درجے کے یورینیم ایسک کا پانچ فیصد حصہ لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فرانس نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ وہ نائیجر میں بغاوت کو ختم کرنے کے لیے مغربی افریقی بلاک کی "مضبوطی سے" حمایت کرتا ہے۔ تاہم روس نے کہا ہے کہ خطے کے ممالک کے معاملات میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی مداخلت کو محدود ہونا چاہیے اور مغربی طاقتوں کی مداخلت ان ممالک میں تنازعات میں اضافہ ہی کرے گی۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ غیر علاقائی قوتوں کی مداخلت سے نائجر کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

پیسکوف نے کہا کہ ماسکو صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور مزید کہا کہ ہمیں نائیجر میں کشیدگی پر تشویش ہے اور ہم انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالے بغیر آئین کے نفاذ کے لیے فوری واپسی کے حق میں ہیں۔"

استعمار کا خاتمہ

مغربی قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم کا ماڈل اب ناکام ہو چکا ہے اور ممالک دوسرے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ فرانسیسی استعمار ختم ہو چکا ہے۔ افریقہ میں اب کوئی بھی فرانسیسی استعمار کے حق میں نہیں ہے۔ مزید افریقی ممالک نے حال ہی میں اپنی سرزمین پر دہشت گردی سے لڑنے اور اپنے سلامتی کے چیلنجوں کا طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے روس اور چین جیسی غیر ملکی طاقتوں کا رخ کیا ہے۔ ان اقدامات میں روس کی طرف سے افریقہ کی قومی فوجوں کی تربیت اور مغرب کے سابق استعماری آقاؤں کی مداخلت کو ختم کرنا شامل ہیں۔

افریقہ براعظم کی اقتصادی ترقی میں مدد کے لیے بیرونی طاقتوں کی تلاش میں ہے نہ کہ اس کے وسائل کو لوٹنے کے لیے۔ افریقی ممالک یقیناً کہتے ہیں کہ اس کا مطلب مغرب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا نہیں ہے۔ یہ محض اس کے نوآبادیاتی ماضی کی سخت مخالفت اور افریقہ میں نوآبادیاتی حکمرانی کی بحالی کی کوشش ہے۔

News ID 1918283

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha